سمندر کے اندر انٹرنیٹ کی کیبل خراب ہونے سے انٹرنیٹ نہیں چل رہا

6:44 PM


ہَم کبھی کبھار یہ سُنتے ہیں کہ سمندر کے اندر انٹرنیٹ کی کیبل خراب ہونے سے انٹرنیٹ نہیں چل پایا یا نہیں چل رہا، کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ کیسی کیبل ہے..؟ اس کیبل کو کس نے سمندر کے گہرے فرش پہ فکس کیا..؟ یہ کیبل کیسے کام کرتی ہے...؟ اور یہ کیبل کتنی مہنگی ہے...؟
پوری دُنیا کا مواصلاتی نظام انہی تاروں کے ذریعے چل رہا ہے ان کیبلز کو فائبر آپٹک کیبلز کہا جاتا ہے یہ کیبلز سلور یا کاپر کی بجائے اعلیٰ قسم کے شیشے یا پلاسٹک کی بنی ہوئی ہوتی ہیں اس کیبل کے تین لیئرز ہوتے ہیں اس کے سب سے اوپری حصے یعنی ربڑ کی تہہ کو کوَر Cover کہا جاتا ہے درمیانی حفاظتی تہہ کو کاڈلِک Codlick کہا جاتا ہے اور سب سے درمیانی تہہ جو چھوٹی چھوٹی کیبلز پہ مُشتمل ہوتی ہے جو اصل طور پہ کارآمد ہے کو کور Core کہتے ہیں Core میں بہت سی دوسری کیبلز کا سیٹ ہوتا ہے اور ہر کیبل میں سینکڑوں باریک شیشے یا پھر پلاسٹک کے ریشے ہوتے ہیں یہ ریشے زیادہ سے زیادہ انسانی بال جتنا موٹائی رکھتے ہیں۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ اس کائنات کی سب تیز ترین چیز کیا ہے..؟ جی بالکُل روشنی اس کائنات کی تیز ترین چیز جس کی رفتار کم و بیش 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جبکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کُل فاصلہ 12373 کلومیٹر ہے یعنی روشنی کی ایک رے پاکستان سے لیکر امریکہ تک کا سفر ایک سیکنڈ کے لاکھوں حصوں سے بھی پہلے طے کر لیتی ہے ۔
ہمارا موضوع روشنی نہیں ہمارا موضوع فائبر آپٹک کیبل ہی ہے لیکن میں آپ کو بتانا یہ چاہ رہی ہوں کہ ایک فائبر آپٹک کیبل دراصل کام کیسے کرتی اور یہ اتنی تیز ڈیٹا کیسے ٹرانسفر کرتی ہے فرض کریں میں اپنے کمپیوٹر پہ یہی تحریر پوسٹ کر رہی ہوں جونہی میں پوسٹ کروں گی یہ دُنیا میں جہاں جہاں بھی پیج لائک ہے سب کو نظر آنے لگے گی یہ کیسے مُمکن ہوا...؟
جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چُکی ہوں کہ ایک فائبر آپٹک کیبل کسی سلور یا کاپر وغیرہ کی تار نہیں ہوتی اس میں موجود ہزاروں ریشے اعلیٰ قسم کے شیشے اور پلاسٹک سے بنے ہوتے ہیں اور یہی ہمارے ڈیٹا کی رسائی کا سب سے تیز ذریعہ بنتے ہیں۔
میں نے جونہی اپنی پوسٹ شیئر کی میرا یہ ڈیٹا ایک خاص ٹرانسمیٹر کی مدد سے پہلے روشنی میں کنورٹ ہوگا پھر یہ فائبر آپٹک کیبل میں داخل ہوگا جونہی یہ ڈیٹا اس کیبل میں داخل ہوگا یہ روشنی کی رفتار کے جتنا ہی رفتار سے سفر کرے گا اس کیبل کے ایک ریشے میں سے ہزاروں قسم کے ڈیٹا بیک وقت سفر کر سکتے ہیں۔
فائبر آپٹک کیبل کی تین اقسام ہیں
1: 288 Count Fiber
یہ دُنیا کی سب سے مہنگی قسم ہے جس کی قیمت تقریباً 5.87$ /فٹ ہے
2: 144 Count Fiber
قیمت 2.98$/ فٹ
3: 24 Count Fiber
قیمت 0.68$/فٹ ہے...
اس کیبل کو سمندروں کی گہری تہوں میں بھی بچھایا جاتا ہے اور زیر زمین بھی زمیں میں مُختلف مشینری کے ذریعے گڑھا کھود کر دبا دیا جاتا ہے جبکہ سَمندروں میں اسے بچھانے کے لیئے ایک شِپ کی ضرورت پڑتی ہے جس پہ ایک بہت بڑا فیتہ نصب ہوتا ہے جہاں فائبر آپٹک کیبل لپیٹی ہوئی ہوتی ہے ۔ پھر ایک کیبل لیور جس کو شپ سے باندھ کر سمندر میں گرایا جاتا ہے یہ اوپر کیبل کے فیتہ سے کیبل کھینچتا ہے اور سمندر کے فرش پہ ایک خاص ترتیب سے بچھاتا آتا ہےجوں جوں شپ آگے چلتا جاتا ہے یہ لیور کیبل بچھاتا چلا آتا ہے ۔
یہ صرف اور صرف ہموار سمندری فرش پہ ہی قابل استعمال ہوتا ہے زیرِ سمندر پہاڑی چٹانوں پہ کیبل بچھانے کے لیئے ایک اور برقی آلے کا استعمال کیا جاتا ہے جو پانی میں تیرتے ہوئے کیبل کو بچھاتا ہے
یہ فائبر آپٹک کیبلز ہی پوری دُنیا کو آپس میں جوڑنے کا سب سے بڑا ذریعہ کہلاتی ہیں
دُنیا کے تمام مُمالک ایک دوسرے کا مواصلاتی نظام انہی فائبر آپٹک کیبلز ذریعے وصول کرتے ہیں
31 اکتوبر 1926 کو پیدا ہونے والے انڈین نژاد امریکی شہری نریندر سِنگھ کَپانے فائبر آپٹک کیبل کا موجد ہے.
سمندر کے اندر انٹرنیٹ کی کیبل خراب ہونے سے انٹرنیٹ نہیں چل رہا  سمندر کے اندر انٹرنیٹ کی کیبل خراب ہونے سے انٹرنیٹ نہیں چل رہا Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 6:44 PM Rating: 5

آپ دو سے تین بجے کے درمیان کوئی اہم فیصلہ نہ کریں کیوں کہ

7:32 AM


انسانی عادتوں کے ماہرین نے ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی ہے اور معلوم ہوا دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں‘ یہ ڈیٹا جب مزید کھنگالا گیا تو پتا چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں۔
یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی‘ اس ریسرچ نے ”ڈسین میکنگ“ (قوت فیصلہ) کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا‘ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتا چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے‘ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ”ری چارجنگ“ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اگر اسے ری چارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ کر دیتا ہے‘ ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہم لوگ اگر صبح سات بجے جاگیں تو دن کے دو بجے سات گھنٹے ہو جاتے ہیں۔
ہمارا دماغ اس کے بعد آہستہ آہستہ سن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی لائین لگا دیتے ہیں چناں چہ ہم اگر بہتر فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد فیصلے بند کر دینے چاہئیں اور آدھا گھنٹہ قیلولہ کرنا چاہیے‘ نیند کے یہ30 منٹ ہمارے دماغ کی بیٹریاں چارج کر دیں گے اور ہم اچھے فیصلوں کے قابل ہو جائیں گے‘ یہ ریسرچ شروع میں امریکی صدر‘ کابینہ کے ارکان‘ سلامتی کے بڑے اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سی ای اوز کے ساتھ شیئر کی گئی۔
یہ اپنے فیصلوں کی روٹین تبدیل کرتے رہے‘ ماہرین نتائج نوٹ کرتے رہے اور یہ تھیوری سچ ثابت ہوتی چلی گئی‘ ماہرین نے اس کے بعد ”ورکنگ آوورز“ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا‘آفس کے پہلے تین گھنٹے فیصلوں کے لیے بہترین قرار دے دیے گئے‘ دوسرے تین گھنٹے فیصلوں پر عمل کے لیے وقف کر دیے گئے اور آخری گھنٹے فائل ورک‘ کلوزنگ اوراکاؤنٹس وغیرہ کے لیے مختص کر دیئے گئے‘ سی آئی اے نے بھی اس تھیوری کو اپنے سسٹم کا حصہ بنا لیا۔
جنرل احمد شجاع پاشا نے ایک بار کہا تھا‘ امریکی ہم سے جب بھی کوئی حساس میٹنگ کرتے تھے تو یہ رات کے دوسرے پہر کا تعین کرتے تھے‘ میں نے محسوس کیا یہ میٹنگ سے پہلے ہمارے تھکنے کا انتظار کرتے ہیں چناں چہ ہم ملاقات سے پہلے نیند پوری کر کے ان کے پاس جاتے تھے۔ فقیر سے اگر پوچھا جائے ”تم لوگ مانگنے کے لیے صبح کیوں آتے ہو اور شام کے وقت کیوں غائب ہو جاتے ہو“ فقیر کا جواب ”لوگ بارہ بجے تک سخی ہوتے ہیں اور شام کو کنجوس ہو جاتے ہیں‘ ہمیں صبح زیادہ بھیک ملتی ہے“ ۔
مجھے پہلے یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی لیکن میں نے جب دو بجے کی ریسرچ پڑھی تو مجھے فقیر کی بات سمجھ آ گئی‘ آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا آج سے پچاس سال پہلے لوگ زیادہ خوش ہوتے تھے‘ یہ شامیں خاندان کے ساتھ گزارتے تھے‘ سپورٹس بھی کرتے تھے اور فلمیں بھی دیکھتے تھے‘کیوں؟ کیوں کہ پوری دنیا میں اس وقت قیلولہ کیا جاتا تھا‘ لوگ دوپہر کو سستاتے تھے مگر انسان نے جب موسم کو کنٹرول کر لیا‘ یہ سردی کو گرمی اور گرمی کو سردی میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہو گیا تو اس نے قیلولہ بند کر دیا چناں چہ لوگوں میں خوشی کا مادہ بھی کم ہو گیا اور ان کی قوت فیصلہ کی ہیت بھی بدل گئی۔
ریسرچ نے ثابت کیا ہم اگر صبح سات بجے اٹھتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد ہلکی نیند کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اگر دو سے تین بجے کے دوران تھوڑا سا سستا لیں‘ ہم اگر نیند لے لیں تو ہم فریش ہو جاتے ہیں اور ہم پہلے سے زیادہ کام کر سکتے ہیں‘ پوری دنیا میں فجر کے وقت کو تخلیقی لحاظ سے شان دارسمجھا جاتا ہے‘ کیوں؟ ہم نے کبھی غور کیا‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ ہم بھرپور نیند لے چکے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے دماغ کی تمام بیٹریاں چارج ہو چکی ہوتی ہیں اور دوسرا فجر کے وقت فضا میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور آکسیجن ہمارے دماغ کے لیے اکسیر کاد رجہ رکھتی ہے۔
یہ ذہن کی مرغن غذا ہے چناں چہ ماہرین کا دعویٰ ہے آپ اگر بڑے فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کام صبح بارہ بجے سے پہلے نمٹا لیں اور آپ کوشش کریں آپ دو سے تین بجے کے درمیان کوئی اہم فیصلہ نہ کریں کیوں کہ یہ فیصلہ غلط ہو گا اور آپ کو اس کا نقصان ہو گا...
آپ دو سے تین بجے کے درمیان کوئی اہم فیصلہ نہ کریں کیوں کہ  آپ دو سے تین بجے کے درمیان کوئی اہم فیصلہ نہ کریں کیوں کہ Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 7:32 AM Rating: 5

اپنے جسم کے اعضاء کا خیال رکھئے اور ان کو خوفزدہ مت کیجیئے

7:42 PM

1۔معدہ(Stomach): اس وقت ڈرا ہوتا ہے جب آپ صبح کا ناشتہ نہیں کرتے      ۔

2۔گردے(Kidneys)      اس وقت خوفزدہ ہوتے ہیں جب آپ 24 گھنٹے میں 10 گلاس پانی نہیں پیتے۔

3۔پتہ( Gall bladder )     اس وقت پریشان ہوتا ہے جب آپ رات 11بجے تک سوتے نہیں اور سورج طلوع سے پہلے جاگتے نہیں ہیں

۔4۔چھوٹی آنت(small intestines )     اس وقت تکلیف محسوس کرتی ہے جب آپ ٹھنڈے مشروبات پیتے ہیں اور باسی کھانا کھاتے ہیں۔

5۔بڑی آنت(Large intestine) اس وقت خوفزدہ ہوتی ہے جب زیادہ تلی ہوئی یا مصالحہ دار چیز کھاتے ہیں

6۔پھیپھڑے ( Lungs ) اس وقت بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں جب آپ دھواں دھول سگریٹ بیڑی سے آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں ۔

7۔جگر(Liver) اس وقت خوفزدہ ہوتا ہے جب آپ بھاری تلی ہوئی خوراک اور فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں ۔8۔دل(Heart ) اس وقت بہت تکلیف
 
محسوس کرتا ہے جب آپ زیادہ نمکین اور کولیسٹرول والی غذا کھاتے ہیں

9۔لبلبہ(Pancreas )لبلبہ اس وقت بہت ڈرتا ہے جب آپ کثرت سے مٹھائی کھاتے ہیں اور خاص کر جب وہ فری دستیاب ہو۔

10۔آنکھیں(Eyes )اس وقت تنگ آ جاتی ہیں جب اندھیرے میں موبائل اور کمپیوٹر پر ان کی تیز روشنی میں کام کرتے ہیں ۔

11۔دماغ(Brain ) اس وقت بہت دکھی ہوتا ہے جب آپ منفی negative سوچتے ہیں ۔

اپنے جسم کے اعضاء کا خیال رکھئے اور ان کو خوفزدہ مت کیجیئے۔ یاد رکھئے یہ اعضاء مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں ۔

اپنے جسم کے اعضاء کا خیال رکھئے اور ان کو خوفزدہ مت کیجیئے اپنے جسم کے اعضاء کا خیال رکھئے اور ان کو خوفزدہ مت کیجیئے Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 7:42 PM Rating: 5

کچھ طبی مشورے

6:52 AM


کچھ طبی مشورے
گلے میں خراش ہو تو اپنے کان کے اندر کھجلی کریں کیوں کہ کان کے اندر رگوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ وہاں خارش کرنے سے آپ کے گلے کو خودبخود سکون پہنچے گا۔۔
کسی نہایت شور والی جگہ پر کسی کو سننے میں دشواری ہے؟؟ تو کسی شخص کی بات سننے کے لیے دائیں کان کا استعمال کریں کیوں کہ دایاں کان انسانی آواز کو زیادہ تیزی اور زیادہ بہتری سے کیچ کرتا ہے۔
باتھ روم جانے کی سخت حاجت ہے لیکن باتھ روم پاس نہیں ہے۔۔۔کوئی بات نہیں اپنے پیارے لوگوں کے بارے زیادہ سے زیادہ سوچیں۔۔۔یہ خیالات آپ کے دماغ کو مصروف کر دیں گے اور آپ کا دماغ بھٹک جائے گا۔۔۔
اگلی دفعہ جب بھی ٹیکہ لگوانے جائیں جیسے ہی ٹیکے کی سوئی جسم میں گھسے آپ ہلکا سا کھانس دیں۔۔۔ کیوں کہ کھانسی آپ کی ریڑھ کی ہڈی میں دباو پیدا کر دیتی ہے اور درد جو آپ کے دماغ کی جانب سفرکرنا ہی چاہ رہا ہوتا ہے اس کی شدت کم ہو جاتی ہے۔
اگر آپ نے رات کو زیادہ کھانا کھا لیا ہے اور آپ نے کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی تو آپ اپنی بائیں جانب سوئیں ۔اس طرح آپ کی غذائی نالیاں آپ کے معدے سے نیچے رہیں گی اور آپ معدے کی تیزابیت محفوظ رہیں گے۔۔۔
دانت میں درد ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔اپنے ہاتھ کی پچھلی جانب انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے مابین درمیان برف رگڑیں۔۔ہاتھ کے پچھلی جانب رگوں کا پھیلاو اس قسم کا ہے کہ منہ میں موجود دانتوں کا درد دماغ تک نہیں پہنچ پاتا۔۔۔
ناک سے خون نکل رہا ہے اور خون رک نہیں رہا؟؟ کاٹن لیں اور اپنا منہ کھول کر اوپر والے مسوڑے میں خالی جگہ رکھ کر زور سے دبا دیں کیوں کہ آپ کے ناک سے بہنے والا زیادہ تر خون مسوڑے کی اوپر والی جگہ سے آتا ہے۔۔۔
نروس ہیں؟ دل کی دھڑکن قابو نہیں ہو رہی؟؟ اپنے ہاتھ کے انگوٹھے کو منہ میں لے کر پھونکیں ماریں۔۔۔۔ ایسا کرنے سے ہاتھ کے انگوٹھے سے منسلک جو رگ دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرتی ہے وہ اپنا کام تیز کر دے گی۔۔
پانی کے نیچے سانس لینا ہے؟؟؟ اکثر یوں ہوتا ہے کہ پانی کی تہہ میں جانے سے پہلے ہم ایک لمبا سانس لیتے ہیں تا کہ پانی کے نیچے زیادہ وقت گزار سکیں۔۔۔ایسا کرنا درست نہیں۔۔پانی کے نیچے جانے سے پہلے تیزی سے چھوٹے چھوٹے سانس لیں۔۔ اور پانی میں چلے جائیں۔۔اس طرح آپ کے دماغ کو آپ دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں کہ آپ کے پاس کافی آکیسجن جمع ہو گئی ہے کیوں کہ آپ کا دماغ ہی ہے جو آپ کو ڈراتا ہے کہ باہر آ جاو آکیسجین کم ہو ہو رہی ہے۔۔چھوٹے چھوٹے سانس لے کر پانی کی تہہ میں جانے سے آپ سات سے دس سیکنڈز زیادہ وقت گزار سکتے ہیں۔
ہاتھ یا پاوں سو گئے ہیں؟؟ کوئی بات نہیں۔۔ابھی جگا لیتے ہیں۔۔اپنے سر کو دائیں سے بائیں یا کلاک وائز اور اینٹی کلاک وائز گھمانا شروع کر دیں۔۔چند سیکنڈز کے اندر اندر ہاتھ یا پاوں نیند سے بیدار ہو جائیں گے۔
ہچکیاں آ رہی ہیں؟؟ْ اپنے انگوٹھے اور دوسری انگلی(شہادت کی انگلی کے ساتھ والی) کو اپنی بھنووں (آئی برو) پر رکھیں اور ہلکا سا دبائیں۔۔کچھ دیر ایسا رہنے دیں ہچکی رک جائے گی ۔۔۔ان شاء اللہ
کچھ طبی مشورے کچھ طبی مشورے Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 6:52 AM Rating: 5

نو باتیں جو شاید سگریٹ پینے والے بھی نہیں جانتے 🚬

10:48 PM

🚬9 باتیں جو شاید سگریٹ پینے والے بھی نہیں جانتے🚬
سگریٹ ایک دھویں والا کند خنجر ہے جو آہستہ آہستہ آپ کو کاٹ رہا ہوتا ہے۔
یعنی جب آپ سگریٹ کو روشن کرتے ہیں تو آپ کی زندگی جلنا شروع ہو جاتی ہے۔
یوں تو آج کل سگریٹ پینا ایک اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے اور اس کا پینا برا نہیں سمجھا جاتا،
لیکن اس سے صحت کو ہونے والے نقصانات کسی سے چھپے نہیں۔
البتہ ممکن ہے سگریٹ نوشی سے متعلق یہ 9 باتیں سگریٹ پینے والے نہ جانتے ہوں:
1۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے 95 کروڑ افراد یومیہ 1.5 بلین سگریٹ پھونکتے ہیں،
جن میں لاکھوں پاکستانی بھی شامل ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستانیوں نے گزشتہ سال 2250 بلین روپے سگریٹ نوشی پر صرف کئے۔
2۔ پاکستان ڈیموگرافکس ہیلتھ سروے کے مطابق 46 فیصد مرد اور 7.5 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کی عادی ہیں جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور اور کسانوں کی ہے۔
3۔ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ سگریٹ نوشی کے سبب موت کا لقمہ بن جاتے ہیں۔
4۔ سگریٹ کے کش پر کش لگا کر نہ جانے کتنے لوگ موت کو پکار رہے ہوتے ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی موت کا پروانہ تحریر کر رہے ہوتے ہیں۔
تمباکو نوشی انسانی صحت کے لئے انتہائی مہلک ہے۔
یہ انسان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے۔
5۔ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو کام کے بوجھ، ذہنی تناؤ اور تھکان دور کرنے کے لئے سگریٹ نوشی کا سہارا لیتے ہیں لیکن طبی ماہرین کے مطابق اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ سگریٹ پینے سے تھکاوٹ اور اسٹریس دور ہوتا ہے۔
انسان کو ایسا اس لئے لگتا ہے کہ سگریٹ پینے سے اس کی تھکن کم ہو رہی ہے کیونکہ ایک تو تھوڑی دیر کام سے بریک مل رہا ہوتا ہے اور اس میں موجود نیکوٹین دماغ کو متاثر کر رہی ہوتی ہے۔
سگریٹ پینے کے بعد آپ جب دوبارہ کام کرنے جاتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد آپ پھر سے ذہنی دبائو محسوس کرنے لگتے ہیں اور آپ کو پھر سے سگریٹ کی طلن شرو ع ہو جاتی ہے۔
6۔ ایک تحقیق کے مطابق سگریٹ کے دھوئیں سے دماغ کا ایک اہم انزائم تباہ ہو جاتا ہے،
جس کا کام دماغ میں خواہشات کو کنڑول کرنےکا ہوتا ہے۔
جبکہ ڈوپا مین نامی انزائم کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو مزید سگریٹ نوشی پر اکساتا ہے۔
7۔ سگریٹ نشے کی دنیا کی پہلی سیڑھی ہے اور اس سیڑھی کے بعد کئی اور تاریک سیڑھیاں ہیں جو انسان کو تباہی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔
8۔ سگریٹ صرف پینے والوں کو ہی نہیں بلکہ اس کے اطراف موجود افراد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے اور ایسے افراد جو سگریٹ نہیں پیتے اور صرف اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں ان میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
9۔ پاکستان میں سگریٹ نوشی سے نمٹنے کے لئے کئی قوانین بنائے گئے ہیں جس میں نوجوانوں کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 18 سال سے کم عمر بچوں کا سگریٹ پینا اور تعلیمی اداروں کی 50 میٹر حدود میں سگریٹ فروخت کرنا جرم ہے،
مگر افسوس.... کی بات یہ ہے کہ ان قوانین پر سختی سے عمل در آمد نہیں کرایا جاتا.
نو باتیں جو شاید سگریٹ پینے والے بھی نہیں جانتے 🚬 نو باتیں جو شاید سگریٹ پینے والے بھی نہیں جانتے 🚬 Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 10:48 PM Rating: 5

نیلے شلوار قمیض میں ملبوس ہے یہ برطانیہ کی شہزادی

10:17 PM

زیر تصویر جو عورت نیلے شلوار قمیض میں ملبوس ہے یہ برطانیہ کی شہزادی ہے

جو نہ ہمارے مذہب سے ہے نہ وہاں ہمارا رسم و رواج ان کے ساتھ ہے لیکن اس نے اس دهرتی پر قدم رکهتے ہیں خود کو ہمارے کلچر میں رنگ لیا
لیکن پتہ نہیں کیوں اسی ملک میں پرورش اور تعلیم حاصل کرنے والی لبرل عورتیں خود کو ننگا کر رہی ہیں
میرا جسم میری مرضی کے بینر اٹها کر گلی گلی عورت اور مذہب کی تزلیل کر رہی ہیں
اس عورت نے خود کو ڈهانپ پر اپنی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا !!
غور سے دیکھیں پورے لباس میں کتنی خوبصورت نظر آ رہی ہے۔پتہ نہیں کیوں لڑکیاں سمجھتی ہیں شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے ہم ماڈرن اور خوبصورت نظر ائیں گے۔



نیلے شلوار قمیض میں ملبوس ہے یہ برطانیہ کی شہزادی نیلے شلوار قمیض میں ملبوس ہے یہ برطانیہ کی شہزادی Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 10:17 PM Rating: 5

جتنے بھی آپ تنگ ہو چار چیزیں مت کرنا

9:12 AM

جتنے بھی آپ تنگ ہو چار چیزیں مت کرنا
ایک کسی کے ساتھ مشترکہ کاروبار مت کرنا چاہے آپ کا بھائی یا کوئی بھی رشتہ ہی کیوں نا ہو
دوسرا جتنے بھی آپ تنگ ہو باہر ملک جاب کے لیے مت جانا مسلم ممالک میں تو بھول کر بھی مت جانا
تیسرا اگر آپ صرف سادہ تعلیم ایف اے بی اے ہی کرنا چاہتے ہیں تو ان پر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ میٹرک کرتے ہی کوئی چھوٹا سا کاروبار شروع کردیں اگر کاروبار کے لیے بلکل بھی پیسے نہیں ہے تو آپ مارکیٹنگ کا کام شروع کردیں آپ ہول سیل کی مارکیٹ سے مختلف چیزیں لے اور ایک کلومیٹر کے اندر اندر جتنی دکانیں آتی ہے سب پر جائے مارکیٹنگ کریں اور چیزیں بیچ دیں اگر آپ ایک فریش اپ ببل کے پیکٹ ہی دکان والوں کو سیل کرنا شروع کردیں تو یہی کام آپ کو بہت ہوجانا
جتنا عرصہ آپ نے ایف اے بی اے کرنے میں ضائع کرنے ہیں
اتنے میں آپ کا مارکیٹ میں ایک نام اور ایک پہچان بن جانی ہے اپنا اخلاق اچھا کرلو اپنا مارکیٹنگ کی دنیا کے بادشاہ بن جاؤ گے
اور آپ بہت جلد ہی ایک بہترین تاجر بن کر ابھرے گے
جب ایف اے بی اے کرکے نوجوان نوکری کے لیے دھکے کھارہے ہونگے جب وہ پندرہ بیس ہزار کی نوکری کو ترس رہے ہونگے اُس وقت آپ اپنے کاروبار کے مالک بن کر سفید کپڑے پہن کر اُن سے ہزار درجہ بہتر زندگی گزار رہے ہونگے
ایک بات یاد رکھیں دنیا میں کوئی بھی انسان جاب سے امیر نہیں بنا جو بھی بنا اپنے کاروبار سے بنا
نمبر چار: آپ شرم چھوڑ دیجیئے یہ مت سوچیئے لوگ کیا کہے گے کوئی بھی اپنا چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے سے شرم مت کرنا لوگ تو صرف باتیں ہی کرتے ہیں ضرورت کے وقت کوئی کام نہیں آتا لہزا لوگوں کی پرواہ مت کریں وقت کو ضائع مت کریں
وقت پیچھے مُر کر نہیں دیکھتا آج اگر آپ جاب کی تلاش میں وقت ضائع کررہے ہیں تو چھوٹے سا اپنا کام کرنے سے شرماتے ہیں تو کل یہی وقت آپ کو ضائع کردیں گا
میرے نبیؐﷺ نے تو بکریاں تک بھی چرائی ہیں
جب وہ نہیں شرمائے
تو میں اور آپ کس کھیت کی مولی ہے زرا سوچیئیے گا
جتنے بھی آپ تنگ ہو چار چیزیں مت کرنا جتنے بھی آپ تنگ ہو چار چیزیں مت کرنا Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 9:12 AM Rating: 5

ﻏﺮﯾﺐ ﮨﯿﻠﻤﭧ ﻧﮩﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﺳﮑﺘﮯ

8:58 AM

"ﻏﺮﯾﺐ ﮨﯿﻠﻤﭧ ﻧﮩﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﺳﮑﺘﮯ"
ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭼﮍﯾﺎ ﺟﺐ ﺍﮌﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﮩﺎﺯ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﻠﯿﮧ ﺑﮕﺎﮌ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺭﻭپے ﮐﺎ ﺟﻨﮕﯽ ﺟﮩﺎﺯ ﺍﯾﮏ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﮐﮯ ﭨﮑﺮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﻟﻮﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﮐﮫ ﮐﮯ ﮈﮬﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻮﺍ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﮨﮯ
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺘﻨﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺌﮯ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺳﻄﺎً ﺩﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺌﯽ ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﮨﻮ ﭼﮑﮯہیں
ﺗﯿﺰ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺜﻼ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ 60 ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺳﺎﮐﻦ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺳﭙﯿﮉ ﺳﺎﭨﮫ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺭﮐﺎﻭﭦ،ﺣﺎﺩﺛﮯ,ﺭﺯﺳﭩﻨﺲ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﯾﮏ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﺎﭨﮫ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﻓﯽ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﮌﺗﯽ ﮨﮯ ﻓﻼﺋﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺑﮭﺎﺭیﺣﺼﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
*ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﺑﮭﺎﺭﺍ ﺣﺼﮧ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮨﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﮨﮉﯼ ﺑﮭﯽ ﻭﺯﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﮍﯾﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻭﺯﻧﯽ ﻟﮩﺬﺍ ﺣﺎﺩﺛﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﺁﮔﮯ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺮ ﭨﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﭼﻮﭦ لگتی ہے
نتیجہ=ﺑﮯ ﮨﻮشی ﯾﺎ فوری موت
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﮮ ﻓﯿﺼﺪ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ
ﮨﯿﮉ ﺍﻧﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮉﯾﺴﻦ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﺩﯾﻨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻮﻣﺎ ﻏﻠﻂ ﺍﻧﺠﯿﮑﺸﻦ ﮨﯿﮉ ﺍﻧﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﭨﺮﯾﻔﮏ ﺣﺎﺩﺛﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﯿﺲ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﻮ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﻥ ﺑﮩﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﻠﻤﭧ ﻏﺮﯾﺐ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪ ﺳﮑﺘﮯ ﻭﮦ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟؟؟
ﻗﻮﻡ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺟﺮﻣﺎﻧﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ ﮨﺎﮞ ﻣﮕﺮ ﮐﻔﻦ ﺩﻓﻦ ﺗﻨﺒﻮ ﻗﻨﺎﺗﯿﮟ ،ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﺎﺕ ﺟﻤﻌﺮﺍﺗﯿﮟ ﭼﺎﻟﯿﺴﻮﺍﮞ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﻨﮑﮯ ﻣﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻟﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺩﺱ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺍﯾﺴﮯ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﯾﻒ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﻮ.
ﺟﺎﻥ ﺑﮩﺖ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﮯ،ﮨﯿﻠﻤﭧ ﻭﺍﺣﺪ ﺳﯿﻔﭩﯽ ﮨﮯ
ﺳﺮ ﺑﭻ ﺟﺎﺋﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﭻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﺟﮍ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺳﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺗﻮﮌﻧﮯ ﮐﮯ
ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﮨﯿﻠﻤﭧ ﺗﻮﮌﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﯿﮟ.
ﻏﺮﯾﺐ ﮨﯿﻠﻤﭧ ﻧﮩﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﺳﮑﺘﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﮨﯿﻠﻤﭧ ﻧﮩﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﺳﮑﺘﮯ Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 8:58 AM Rating: 5

Groups and Periods in Periodic Table

5:45 PM
GROUPS AND PERIODS

(a) Groups:
"Elements with similar properties are placed in vertical columns called groups."
        There are eight groups, which are usually numbered by Roman numerals I to VIII. Each group is divided into two sub groups, designed as A and B sub-groups. The sub-groups, containing the typical or normal elements or representative elements, are labeled as A sub-groups whereas B sub-groups contain less typical elements, called transition elements and are arranged in the centre of the Periodic Table.


(b) Periods:
"The horizontal rows of the periodic table are called periods."

Period 1: 
        The period 1 contains only two elements, hydrogen and helium.

Period 2 and 3:
        The Period 2 and 3 contain eight elements each are called short periods. All the elements in these periods are typical elements and belong to A sub-groups. In these periods, every eight element resembles in properties with the first element. As lithium and beryllium in the 2nd period resemble in most of their properties with sodium and magnesium of the 3rd period respectively. Similarly boron and aluminium both show oxidation state, of +3 fluorine in 2nd period has close resemblances with chlorine of 3rd period.

Period 4 and 5:
        The period 4 and 5 are called long periods. Each long period consists of eighteen elements. Out of these, eight are typical elements belonging to A sub-groups similar to second and third periods. Whereas the other ten elements, placed in the centre of the Table belong to B sub-groups and are known as Transition Elements. In these periods the repetition of properties among the elements occur after 18 elements. As after 19K (having atomic number 19), the next element with similar properties is 37Rb.

Period 6:
        The period 6 is also a long period, which contains thirty-two elements. In this periodic there are eight typical elements, ten transition elements and a new set of fourteen elements called Lanthanides as they start after 57La. Lanthanides have remarkably similar properties and are usually shown separately at the bottom of the Periodic Table.

Period 7:
       The period 7 is incomplete so far. It contains only two normal elements 87Fr and 88Ra, seven transition elements and fourteen inner transition elements. The inner transition elements of this period are called Actinides as they follow 89Ac. The actinides are also shown at the bottom of the Periodic Table under the Lanthanides. Due to their scarcity, the inner transition elements are also called rare earth elements.
        Trans-uranic elements (elements after uranium) they are prepared in the laboratories.
Groups and Periods in Periodic Table Groups and Periods in Periodic Table Reviewed by SaQLaiN HaShMi on 5:45 PM Rating: 5
Theme images by lucato. Powered by Blogger.